تمباکو ہسپانوی زبان کا لفظ ہے ۔ تمباکو کے پتے لمبے ‘ چوڑے اور خوش رنگ ہوتے ہیں جن میں ایک مادہ ہوتا ہے جو نکوٹین کہلاتا ہے ۔ نکوٹین ایک خطرناک زہر ہے جسے انسانی صحت کیلئے سم قاتل سمجھا جاتا ہے ۔ یہ پودا گرم آب وہوا میں پروان چڑھتا ہے ۔
یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ تمبا کو نوشی کی ابتداء کس ملک سے ہوئی ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا استعمال مصر ‘ شام یا چین سے شروع ہوا تھا لیکن ان ممالک کے ادب میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے تاہم یہ یقینی ہے کہ اس کا وطن امریکا ہے جہاں سے یہ 1556ء میں اسپین اور 1565ء میں برطانیہ پہنچا ۔ تمباکو نوشوں کا پہلا رابطہ انگریز قوم سے ہوا ۔ ملکہ الزبتھ اول کے دور میں جب انگریز ملاح جنوبی امریکہ پہنچے تو انہوں نے وہاں کے باشندوں کو پتھر کے بنے ہوئے پائپوں میں تمباکو کے پتے بھرکر پیتے دیکھا ۔ ان کا سردار ریلے واپسی پر اپنے ساتھ تمباکو کے کچھ پتے بھی لایا اور اپنے گھر میں پائپ میں بھرکر پینے لگا ۔ اس کے منھ سے تمباکو کا دھواں نکلتا دیکھ کر اس کا ملازم سمجھا کہ آقا کے منھ میں آگ لگ گئی ہے چنانچہ فوراً بالٹی میں پانی بھر کر اس کے منھ پر پھینکنے لگا ۔
دنیا میں تمباکو کے استعمال کے آغاز کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ مغربی پریس میں اس پر کافی لکھا جاچکا ہے اور مزید لکھا جارہا ہے ۔ ایک عام خیال کے مطابق اس کا آغاز اوائل اٹھارویں صدی میں ہوا اور اسی صدی میں جنوبی امریکہ میں سگریٹ کا پہلا کارخانہ قائم ہوا ۔ یورپ میں سگریٹ کا استعمال ہسپانوی باشندوں نے شروع کیا اور پھر یورپ کے دوسرے ملکوں برطانیہ ‘ فرانس ‘ جرمنی ‘ اٹلی ‘ اسکنڈی نیویا کے ممالک ناروے اور سوئیڈن میں بھی یہ سلسلہ شروع ہوا ۔
عالمی سطح پر تمباکو کا استعمال
عالمی ادارہ صحت کے مطابق مغربی ممالک کی بڑی سگریٹ ساز کمپنیاں ترقی پذیر ممالک میں سگریٹ کے اہداف مقرر کرکے ان ممالک کے عوام کی صحت تباہ کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔ قیاس غالب ہے کہ 2030ء میں ان ممالک میں واقع ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ سگریٹ نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریاں ہوں گی ۔ اس ادارے کے سروے کے مطابق تمام دنیا میں سگریٹ پینے والوں کی تعداد میں تین فی صد سالانہ اضافہ ہورہا ہے اور جس تیزی سے یہ اضافہ ہورہا ہے اس کے مقابلے میں اس کے افراد کے لئے جو اقدامات کئے جارہے ہیں وہ بہت محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
مغربی ممالک کی بعض سگریٹ ساز کمپنیاں گاہکوں
کی تلاش میں سرگرداں ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق جنوب مشرقی ایشیاء میں بعض سگریٹ ساز کمپنیاں ایسے سگریٹ تیار کررہی ہیں جن میں نکوٹین کی سطح تین اعشاریہ دوملی گرام فی سگریٹ ہے ۔ بعض بڑی کمپنیاں جنوب مشرقی ایشیاء اور لاطینی امریکہ میں اسکولوں کے قریب ایسی اشتہار بازی میں مصروف ہیں جس کا مقصد کم عمر بچوں کو سگریٹ نوشی کی طرف مائل کرنا ہے ۔ ایک ریڈیو رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں تمباکو نوشی سے ہرسال چھ لاکھ اموات واقع ہوتی ہیں عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں مرقوم ہے کہہمارے ملک میں 24کروڑ افراد سگریٹ نوشی کے عادی ہیں ۔ اس ادارے کی ڈائریکٹر جنرل نے اپنی خصوصی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس وقت ترقی پذیر ممالک میں 80کروڑ افراد سگریٹ نوشی کے عادی ہیں اور یہاں سگریٹ نوشی سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دنیا بھر میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا پندرہ فیصد ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سگریٹ نوشی کی عادت کے فروغ میں سگریٹ ساز کمپنیوں کی تشہیر اور حکومتی سطح پر ان کی سرپرستی کا بڑا دخل ہے اور اس عادت سے نوجوان طبقہ بری طرح متاثر ہورہا ہے ۔ سگریٹ کے دھوئیں کے مضراثرات اسے موت کے منھ میں لے جارہے ہیں ۔ دنیا کی آبادی چھ ارب ہے اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ دنیا میں ہرسال چھ ارب ڈالر سگریٹ نوشی کی تشہیر اور فروغ پر خرچ کئے جارہے ہیں ۔
عالی ادارہصحت کی رپورٹ مظہر ہے کہ دنیا بھر میں پھیپڑے کے سرطان میں 90فیصد مرد اور 79فی صد عورتیں مبتلا ہوتی ہیں ۔
سگار
سگریٹ نوشی سے پہلے سگار کا رواج تھا ۔ یہ اعلا قسم کے تمباکو سے تیار کئے جاتے ہیں جن میں نکوٹین بہت کم ہوتی ہے ۔ دنیا میں سگار کا پہلا کارخانہ ہمبرگ کے مقام پر 1788ء میں قائم ہوا ۔ 1875ء میں سگار کی تیاری مشینوں سے کی جاتی تھی ۔ منیلا اور ہوانا (کیوبا ) سگارسازی کیلئے دنیا بھر میں مشہور ہیں جہاں اعلی قسم کے سگار تیار کئے جاتے ہیں ۔ امریکہ کی ریاست ورجینا میں جو تمباکو کاشت کیا جاتا ہے وہ اعلیٰ قسم کا تمباکو سمجھا جاتا ہے ۔ یہ تمباکو سگار ‘ چرٹ اور اعلی قسم کے سگریٹ تیار کرنے میں استعمال ہوتا ہے ۔ چوں کہ سگار کی قیمتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں اس لئے یہ غریب حتی کہ متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہے ۔ اسے امیر اور متمول طبقہ عادتاً یا اپنی امارت کے اظہار کے طورپر استعمال کرتا ہے ۔ اس کی بھینی بھینی خوشبو بڑی بھلی محسوس ہوتی ہے ۔ اس کی پیکنگ بھیبے حد دل فریب اور خوش نما ہوتی ہے ۔
**